January 4, 2010

ذات,short story

zaat

   تیرہ سال چھ مہینے اور نو دن کے بعد محمد افضل نے فیصلہ کیا کہ اب وطن کی یاد ناقابلِ برداشت ہے اور اب وقت آگیا ہے جب واپس مڑ جانا چاہیے۔لندن میں محمد افضل کے نام سے جانا جانے والا اپنے وطن میں فضلی نائی کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔پر یہ تو تیرہ سال چھ ماہ قبل کی بات تھی اب پتہ نہیں وہ اس کو پہچانتے بھی ہیں کہ نہیں۔نجانے اس کے من میں کیا سمائی تھی کہ سب کچھ چھوڑ کر دو کپڑوں میں ہی گاؤں کو چھوڑ آیا۔گاؤں میں تو خیر تھا کیا ایسا جس کو چھوڑنے میں مشکل ہوتی ،ایک بوڑھا باپ جس کا پسندیدہ مشغلہ فضلی کو گالیا ں نکالنا اور مارنا تھا، ایک کچا گھر اور وہ بھی چوہدریوں کی مہربانی،چند دوست جو کہیں بھی بنائے جا سکتے ہیں ، ایک ماں اور ایک شمو جو ہر جمعرات شاہوں کے مزار پر اس کے نام کا دیا جلانے کے بعد اس سے ملنے آیا کرتی تھی۔گاؤں چھوڑنا کوئی ایسا گھاٹے کا سودا تونہ تھا ،پر چھوٹنے پر آیا تو پہلے گاؤں چھوٹا پھر شہر اور آخر میں ملک۔

سفر وسیلہ ظفر کا محاورہ محمد افصل پر ہی پورا بیٹھتا تھا۔لندن پہنچ کر اس چٹے ان پڑھ نے وہ ترقی کی کہ سب حیران رہ گئے۔بیرا گیری کرتا کرتا وہ کئی ہوٹلوں کا مالک بن گیا اور اس کی انگریزی سن کون شخص کہہ سکتا کہ یہ کبھی اسکول ہی نہیں گیا ہوگا۔لیکن اس سب کے باوجود وطن کی یاد اندر ہی اندر اس کو کھائے جارہی تھی۔خدا معلوم اماں کیسی ہو گی؟کیا ابھی بھی وہ چوہدریوں کے در پر کام کرتی ہوگی؟ابا کیسا ہوگا؟کیا اب بھی وہ نت نئی گندی گندی گالیاں نکالتا ہوگا،بہن بھائی کیسے ہوں گے؟اور شمو؟اس سے آگے وہ کچھ نہ سوچ سکتا تھا اندر کا گھاؤ مزید گہرا ہوتا جاتا۔جب وہ سوئمنگ پول میں نہا ہو رہا ہوتاتو ننگی میموں کو دیکھ کر اس کو گاؤں کا چھپر اور ماسی دائی یاد آجاتی جو گاؤں کی واحد دائی تھی اورچوہدریوں کے کپڑے بھی دھوتی تھی۔فضلی اور اس کے یار خاص طور پر اس وقت نہانے جاتے جب ماسی دائی کپڑے دھوتی اور تمام لڑکے اس کے کھلے بٹنوں والے گریبان پر نظریں جمائے بیٹھے رہتے کہ کب وہ جھکے گی۔یہ مشق محض فضلی اور اس کے دوستوں تک محدود نہ تھی بلکہ گاؤں کا ہر نوجوان ماسی دائی سے اپنی حیثیت کے مطابق استفادہ کرتا تھا۔محمد افضل کو اپنے دوست یاد آتے شیدا،کاکا اور اس کا کیا نام تھا جس کی شلوار نہر میں نہاتے بہہ گئی تھی ،محمد افضل تھوڑی دیر سوچتا اور پھر تنگ آکر صاف شفاف نیلے کلورین والے پانی میں چھلانگ لگا دیتا۔فضلی نے کبھی نہر کی گہرائی کا لحاظ نہ کیا تھا، بڑی نہرجہاں اکثر لوگ نہانے سے بھی گریز کیا کرتے تھے اس نے وہاں سب سے اونچے درخت سے چھلانگ لگا گر دس روپے کی شرط جیتی تھی پر محمد افضل کو آٹھ فٹ سوئمنگ پول سے خوف آنے لگا تھا۔ان تیرہ سال چھ ماہ اور نو دنوں میں کئی بار اس کا چاہا کہ واپس چلا جائے ۔اگر اس کی ماں لوگوں کے کہنے کے مطابق چوہدریوں کے گھر ہر طرح کے کام آتی تھی تو یہ اس کا ذاتی فعل تھا ،اتنی سی بات پر خفا ہونے کا کیا مطلب بنتا ہے، اس کے خود کے کئی شادی شدہ عورتوں سے تعلقات رہے تھے لیکن اسے ہمیشہ یہ خوف رہتا تھا کہ وہ تو لندن آکر ایسا سوچتا ہے پر اس کا پنڈ تو وہیں ہے وہ تو لندن نہیں آسکاتو وہ تو ایسا نہ سوچتے ہوں گے۔محمد افضل کا ہر دن ایک نئی امید سے ابھرتا پر وہ لیکن ،اگر کے چکر میں پڑ کر بے بس سا ہو گیا تھا۔پچھلے پانچ سالوں سے بالوں کو مہنگے ہیئرکلرسے رنگتے اس نے کبھی نہ سوچا تھا کہ اس کے بالوں کے رنگ کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ لوگ جن کو تب سہاروں کی ضرورت تھی اب کہاں ہوں گے،کیا شمو کی شادی نہ ہوگئی ہوگی،کیا اب بھی وہ ہر جمعرات کو مزار پر دیا جلاتی ہوگی اور کیا وہ اسی کے نام کا ہوگا،کیا اس کے یار بیلی ویسے ہی ہوں گے جیسے وہ ان کو چھوڑ کر آیا تھا۔لیکن وہ بھی کیا کرتا،اتنا وہ حساب میں طاق کہاں تھا کہ محمد افضل کی عمر فضلی نائی میں جوڑسکتا۔محمد افضل کی حالت اس طوائف کی سی تھی جو کسی کے عشق میں کھو کر یہ بھول بیٹھے کہ اصل میں وہ طوائف ہے جس کو دوسرے لوگ نہ بھولیں گے اور نہ اس کو بھولنے دیں گے۔

جوں جوں عرصہ گزرتا گیا اس کا واپسی کا گھاؤ گہرا ہوتا گیا۔اسے لندن ٹاور مینارِ پاکستان لگتا،انگلش چینل اس کو اپنی بڑی نہر کی ماند دکھتا۔وہاں کے لوگوں میں اس کے گاؤں کے لوگوں کی شباہت بڑھتی جارہی تھی۔اپنے ہوٹل کا شیف اس کو چاچا بگھو لگتا،اس کو اپنے پارٹنر مسٹر شیفرڈ کی شکل میں گاؤں کے بڑے چوہدری صاحب کی شکل نظر آتی،ہوٹل میں انڈین ویٹرس مالا اس کو چاچی شاداں کی بیٹی گلنازی لگتی ۔ کبھی کبھی اس کو یوں لگتا کہ یہ اس کے گاؤں کے ہی لوگ ہیں اور لند ن آکر اس سے مل گئے ہیں۔اس کا دل کرتا کہ مالا سے پوچھے کہ چاچی شاداں کیسی ہے؟ہوٹل کے شیف اور مسٹر شیفرڈ سے گاؤں کا حال احوال پتہ کرے لیکن مالا کا انڈین پاسپورٹ اور مسٹر شیفرڈ اور شیف کا اردو سے نابلد ہونا اس کو حقیقی زندگی میں واپس لے آتا۔لندن آکر وہ محمد افضل تو بن گیا تھا لیکن یہ صرف باہر سے تھا ۔بطور انسان اندر سے وہ آج بھی فضلی نائی تھا۔وہ لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کرنے میں سکون محسوس کرتا تھا۔اسے کبھی کسی گالی پر یا کسی بات پرغصہ نہ آیا تھا۔بس اس نے لند ن میں رہنے کے لیے محمد افضل کا بھیس بدل لیا تھا۔بہرحال وہ محمد افضل اور فضلی نائی کے درمیان کی چکی میں پس رہا تھا۔محمد افضل نے واپسی کی راہ تو بند نہیں کی لیکن وہ جتنا روپیہ لے کر جا سکتا تھا اس نے وہ جمع کیا اور چودہواں سال مکمل ہونے سے پانچ ماہ اور اکیس دن قبل لندن سے لاہور کے لیے روانہ ہوگیا۔

اپنے وطن واپسی پر دوسرے رنگ کا پاسپورٹ دیکھ کر اس کو جو عزت دی گئی اس نے اس کے واپسی کے فیصلے کو مزید تقویت دی۔اپنا ملک،اپنا شہر،تمام تر کجیوں کے باوجود اس کو لندن اور برطانیہ سے لاکھ درجے اچھا لگ رہا تھا۔جب وہ کرایے کی کار لی کر گاؤں روانہ ہوا تو اس نے سوچا شاید میرے پہنچتے ہی گاؤں سے باہر نہر پر نہانے والے لڑکے کار کے پیچھے دوڑتے دوڑتے گاؤں تک چلے آئیں گے،تمام گاؤں میں ہلچل مچ جائے گی کہ یہ کس کی کار آگئی ۔گاؤں میں اس کا بچپن اس کی نظروں کے سامنے گھوم گیااور گاؤں کی کچی سڑکوں کی مانند اس کے گالوں پرپانی سے چھڑکاؤہو گیا۔گذشتہ تیرہ برسوں میں جب فضلی نائی ،محمد افضل بن گیا تھا تو گاؤں نے ویسا کہاں رہنا تھا۔گاؤں کی تمام سڑکیں پکی ہو چکی تھیں اور سڑکوں کے کنارے کھدائی اس بات کی علامت تھی کہ بجلی تو پرانی بات ہوگئی اب تو گیس بھی پہنچنے والی ہے۔جہاں فضلی نائی کا کچا گھر تھا وہاں اب ایک بڑی سی کوٹھی بنی ہوئی تھی۔محمد افضل کا دل کانپ کرٍ رہ گیا،کیا اس کے والدین حیات ہیں؟اگر ہیں تو کہاں ہیں؟کیا وہ ان کو ڈھونڈپائے گا؟محمد افضل نے سوچا چوہدری صاحب سے زیادہ بہتر کون بتا سکے گا۔

جب وہ بڑی ساری کار سے اترا تو ایک لمحے کو چوہدری صاحب پریشان ہو گئے کہ کہیں کوئی سرکاری چکر نہ ہو،آبیانہ،حکومتی قرضہ،بینک سے قرضہ،قبضہ،مقدمے چوہدری صاحب ہر چکر چلا چکے تھے پر اس لمحے وہ سب کے سامنے اٹھ کر جا بھی نہیں سکتے تھے۔اس نے کار سے اتر کر کہا" چوہدری صاحب سلام"!چوہدری صاحب اور وہاں پر موجود باقی افراد کے ذہنوں پر ڈالے جانا والا زور ان کے ماتھے پر جھریوں کی صورت نمایاں تھا۔لیکن وہ اس بڑی کار والے میں شناسائی تلاش کرنے میں ناکام رہے تھے۔آخر وہ خود ہی بول پڑا"چوہدری صاحب میں محمد افضل"۔
کون محمد افضل چوہدری صاحب اور باقی پنڈ والے سوالیہ نشان بنے ہوئے تھے۔محمد افضل کے چہرے کا رنگ اڑ سا گیا،الفاظ اس کے گلے میں اٹک گئے،آواز رندھ گئی اور آنسو اس کو پلکوں پر محسوس ہونے لگے،"فضلی نائی" !ایسی آواز اس کے حلق سے نکلی جس سے وہ خود بھی ناواقف تھا۔"ملنگے نائی کا بیٹا"۔چوہدری صاحب کے گرد تمام کمیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی،مگر چوہدری صاحب کو کچھ نہ سوجھ سکا،شاید وہ بھی فیصلہ نہ کر پا رہے تھے کہ اس کو محمد افضل سمجھیں یا فضلی نائی۔"یہ کیا ہے"؟ ان کے منہ سے اتنا ہی نکلنے پایا۔"بس جی اللہ کا کرم ہے،لندن میں کاروبار ہے اپنا"،فضلی نائی آہستہ آہستہ محمد افضل کی کینچلی اتار رہا تھا۔"کوئی ہیروئن ،شیروئن کا چکر تو نہیں چلایاہوا"؟چوہدری صاحب اپنی جون میں واپس آچکے تھے۔محمد افضل لہجہ سن کر ششدر تھا لیکن فضلی نائی بولا "ناں چوہدری جی محنت کی کمائی ہے"۔محنت کی کمائی کے نام پر گندی سی گالی چوہدری صاحب کہ منہ پر صاف پڑھی جا سکتی تھی۔"محنت تو تیرے ابے نے کبھی نہیں کی،تمام عمر تیری ماں کا کھاتا رہا،اپنی ماں کی خبر لے"، یہ کہہ کر چوہدری صاحب اٹھ کر گھر چلے گئے۔محمد افضل سکتے میں رہ گیا۔اپنے باپ سے ملاقات قبرستا ن میں ایک ٹوٹی قبرپر ہوئی،ماں نے اس کے باپ کے مرنے پر دوسری شادی کر لی اور دوسرے گاؤں جا بسی۔جب وہ تیسری بار ماں سے ملنے گیا تو ماں نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیے کہ تو یہاں نہ آیا کر بشیرا اور اور اسکے حرام خور بچے مجھے مارتے ہیں کہ فضلی سے کہہ کہ ہمیں کاروبار کرا دے۔اور شمو،وہ فضلی کے جانے کے تیسرے سال ہی موچیوں کے لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی تھی اس کے بعد کسی کو نہیں پتہ کہ اس کا کیا ہوا،اس کے باپ نے بھی شکر ادا کیا کہ چلو ایک بلا تو سرسے ٹلی۔چاچا بگھو سے ملنے پر اسے احساس ہوا کہ اس کے اور اس کے شیف کے چہرے میں کوئی مشابہت نہیں،چوہدری صاحب اور مسٹر شیفرڈ کی شکلیں ملنے والے خیال پر اسے ہنسی آنے لگتی،گلنازپانچ بچوں کی ماں ہو کر مالا کی ماں لگتی تھی۔تیرہ سال،چھ ماہ اور نو دن کی واپسی کے بعد محمد افضل صرف سترہ دن پاکستان رہ پایا۔آنے سے قبل اس نے پندرہ ایکڑ زمین خرید کر ماں کے نام کر دی ،اپنے یاروں ،بیلییوں میں باقی پیسہ تقسیم کر دیاجو محمد افضل سے ملنے سے کتراتے تھے اور اپنے باپ کی قبر پکی کروا کر اس پر جلی حروف میں لکھوا دیا ’ملنگ علی‘ ذات نائی۔جیسے محمد افضل نہیں بھول پایا تھا کہ وہ فضلی نائی ہے ایسے ہی گاؤں والے بھی نہیں بھول پائے تھے کہ فضلی نائی ہے۔جس دن وہ واپس گیا اس دن چوہدری صاحب سب کے سامنے کہہ رہے تھے میں نہ کہتا تھا کوئی ہیروئن، شیروئن کا چکر ہے۔شیرے نے خود دیکھا ہے پولیس والوں کو اس کا پتہ پوچھتے ہوئے۔ پولیس کے ڈر سے کیسے بھاگ گیا۔نائی کہیں کا،جو کچھ کر لے آخر ہے تو ملنگے کا جنا ناں،چلا تھا چوہدریوں کی برابری کرنے،اؤے حرامیو جو کچھ ہو جائے نائی نائی ہیں اور چوہدری چوہدری۔